سانحۂ مری – قدرتی آفت یا انتظامی نااہلی

نئے سال کا آغاز سانحۂ مری جیسے دل افروز واقعہ سے ہوا ہے۔ 7 جنوری 2022 کو ٹی وی پر خبر سنی کہ مری میں برف کے طوفان کی وجہ سے 22 لوگ جاں بحق ہو گئے۔جن میں بچے بھی شامل تھے۔ دل بہت دکھی ہوا کہ لوگ چھٹی منانے اپنے خاندان کے ساتھ گئے لیکن کون جانتا تھا کہ سیر کا ارادہ کئی خاندانوں کے لیے ایک برفانی موت کے جال میں بدل جائے گا جو مری جانے والی برف سے ڈھکی سڑکوں پر اپنی کاروں میں پھنسے ہوئے تھے۔ تحریر کے وقت، 10 بچوں سمیت کم از کم 22 افراد گاڑیوں کے اندر جم کر موت کے منہ میں جا چکے تھے اور مسلح افواج اور نیم فوجی ایجنسیوں کی جانب سے بچاؤ کی کوششیں جاری تھیں۔ ان ابتدائی خبروں سے تو یہی تاثر ملا کہ یہ ایک قدرتی آفت تھی۔
سانحہ کے دو دن بعد ہمارے ایک وزیر موصوف کا ٹوئٹ پڑھنے کا موقع ملا ”کہ لاکھوں لوگوں کا مری آنا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں خوشحالی بڑھ رہی ہے اور عام آدمی کی کمائی میں اضافہ ہو رہا ہے“۔
حیرت کے مارے عقل دنگ رہ گئی اور خود پر افسوس بھی ہوا کہ سارا ملک خوشحال ہو گیا اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔
خیر جب کچھ خبریں مزید پڑھیں تو پتا چلا کہ معاملہ تو کچھ اور ہی ہے۔ حکومت نے انتہائی کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے سسارا ملبہ سیر کے لئے آئے ہوئے لوگوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ جیسے جیسے خبریں پڑھتا گیا یہ عقدہ کھلتا گیا کہ یہ قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی نا اہلی اور مری کی مقامی آبادی کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت تھا جس نے اتنے لوگوں کی جان لے لی۔
سانحۂ مری میں انتظامی نا اہلی کا پہلا اشارہ
مری میں جاں بحق ہونے والے اے ایس آئی نوید اقبال کے کزن طیب گوندل کے مطابق (جو کہ ایک فری لانس رپورٹر ہیں) انہوں نے وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ، وفاقی وزیر اطلاعات، راولپنڈی سٹی پولیس آفیسر اور اسسٹنٹ کمشنر مری کو پیغامات بھیجے اور سوائے راولپنڈی سٹی پولیس آفیسر کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ اطلاع ملنے کے باوجود کوئی ایکشن نا لینا ایک مجرمانہ غفلت ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کمیٹی (این ڈی ایم سی) اور حکومت کو سانحۂ مری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اگر این ڈی ایم اے تیار ہوتی اور پیشگی اقدامات کرتی تو ہلاکتیں نہ ہوتیں۔
سانحۂ مری میں انتظامی نا اہلی کا دوسرا اشارہ
ہر سال پنجاب حکومت برفباری سیزن کے لئے خصوصی انتظامات کرتی تھی۔ سڑک سے برف ہٹانے والی تمام مشینوں کی مرمت کروائی جاتی تھی اور ان کے لئے وافر مقدار میں ایندھن اکٹھا کیا جاتا تھا۔ برفباری کی پیشین گوئی کے ساتھ ہی برف ہٹانے والی مشینوں کی تعیناتی اس طرح مختلف مقامات پر کی جاتی تھی کہ شدید ترین برفباری کی صورت میں صرف چند گھنٹے کے اندر باڑیاں سے بھوربن اور گھوڑا گلی سے پوری مظفرآباد روڈ صاف کر دی جاتی تھی اور مرکزی سڑکیں کبھی بھی چند گھنٹے سے زائد بند نہیں رہیں ۔ پنجاب ہائی وے کے تمام سٹاف سمیت حکومتی اہلکاروں کے لئے سٹیشن چھوڑنے پر پابندی تھی۔ ہر سال نئی مشینیں خریدی جاتی تھی۔ چوبیس گھنٹے میں تو تمام ذیلی سڑکیں صاف ہو جاتی تھیں۔اگر ضلعی فنڈز ناکافی ہوتے تو لاہور سے خصوصی فنڈز آتے تھے۔ ٹریفک پولیس خصوصی ڈیوٹیاں لگاتی تھی اور برفباری سے بہت پہلے سینکڑوں ٹریفک وارڈنز اور پولیس لائن سے ریزرو پولیس تعینات کی جاتی تھی۔ مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ وجہ تو شائد کوئی نہ بتائے لیکن سننے میں آیا ہے کہ وزیر اعلی صاحب پی ٹی آئی پنجاب کی تنظیمِ نو میں مصروف تھے۔
سانحۂ مری میں انتظامی نا اہلی کا تیسرا اشارہ
لوگوں کے مطابق روڈ بلاک کی جگہ تین برف ہٹانے والی مشینیں موجود تھیں لیکن کوئی آپریٹر نہیں تھا۔ اگر ایک بھی مشین آپریٹر موجود ہوتا تو انسانی جانوں کے ضیاں سے بچا جا سکتا تھا۔
سانحۂ مری میں انتظامی نا اہلی کا چوتھا اشارہ
جتنی برفباری مری میں ہوئی اتنی ہی گلیات اور گردونواح میں ہوئی لیکن وہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ نا اہلی پنجاب ھکومت کی طرف سے برتی گئی کیونکہ گلیات کا انتظام خیبر پختونخواہ کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
مری کے مقامی لوگوں کی بے حسی
مری میں موجود لوگوں کے مطابق حادثے کی رات مری کے ہوٹلوں میں لوٹ مار کی انتہا کر دی گئی۔ چائے کا کپ 5000 میں دیا گیا۔ ایک خاندان نے بتایا کہ انہیں ہوٹل والوں نے کمرے میں قید کر دیا اور کمرہ چھوڑنے کے لئے پچاس ہزار مانگے جو انہوں نے زیورات دے کر پورے کیے۔ بعد ازاں ضلعی انتظامیہ نے 12 جنوری کو مری کے 15 ہوٹلز کو زیادہ چارج کرنے پر سیل کر دیا۔
مری میں ایک ایسے گروہ کے سرغنہ کو بھی گرفتار کیا گیا جو گاڑیوں کے سامنے برف پھینک کر ان کا راستہ بلاک کر دیتا تھا اور پھر ان کی گاڑی کو ٹو کر کے برف سے نکالنے کے بہانے بھاری رقم اینٹھتا تھا۔
مری میں بہت سی کمپنیوں نے اپنے گیسٹ ہاؤسز بنا رکھے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کے بھی گیسٹ ہاؤسز ہیں لیکن حادثے کی رات ان گیسٹ ہاؤسز کے گارڈز نے کسی کو پناہ کے لئے اندر نہیں گھسنے دیا۔
میرے ذاتی خیال میں ہمیں خود یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ ہم سیروتفریح کے لیے جاتے وقت موسم کی پیش گوئی کا خیال رکھیں۔ لیکن اس حادثے کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے تفریحی مقامات پر ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو کچھ عرصے کے لیے مری کا بائیکاٹ بھی کرنا چاہیے تا کہ وہاں کے لوگوں کو اُن کے لالچ اور بے حسی کا احساس ہو سکے۔
