تحریکِ عدم اعتماد – ایک عام آدمی کا نقطہ نظر

اس وقت پاکستان میں ہر طرف تحریکِ عدم اعتماد کی ہی گونج ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے مقاصد کی تشہیر میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگی ہوئی ہے۔ سیاسی پنڈت اپنی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ سیاسی بزنس مین عوام کے فائدے اور نقصان کو پسِ پشت ڈال کر اپنا مستقبل تابناک بنانے میں مگن ہیں۔ ایک پڑھا لکھاباشعور عام آدمی اس سیاسی تھیٹر کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ چلیں میں اپنے خیالات کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ایسا آخر کیا ہوا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں شیروشکر ہو کر تحریکِ عدم اعتماد لانے پر مجبور ہو گئیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی جماعتیں ہیں جو ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہہ کر ووٹ لیتی رہی ہیں۔بلکہ ایک جاننے والے بزرگ فرما رہے تھے کہ ”کیا سادہ زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی والے ن لیگ والوں کو چور کہہ کر ووٹ لیتے تھے اور ن لیگ والے پیپلز پارٹی کو ڈاکو کہہ کر ووٹ لیتے تھے اور جو جیت جاتا تھا اسے فضل الرحمان مفت میں مل جاتا تھا“۔
تحریکِ عدم اعتماد کی پہلی وجہ – مہنگائی
پہلی وجہ جو اپوزیشن والے بتاتے ہیں تحریکِ عدم اعتماد لانے کی، وہ ہے مہنگائی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ہے۔ اگر سچ پوچھیں تو اس میں عمران خان کا قصور بھی ہے اور بین الاقوامی حالات کا بھی۔ کرونا نے دنیا کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کرونا کی شدت کے دور میں عمران خان کے سخت اور دانش مندانہ اقدامات نے پاکستان کو دوسرے کئی ملکوں کی نسبت زیادہ سنگین نقصانات سے بچائے رکھا۔
پھر افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتحال اور امریکہ کے بزدلانہ فرار نے بھی ہماری معیشت پر برا اثر ڈالا۔ اور حالیہ روس اور یوکرین کی جنگ نے تو دنیا کی معیشت کو شدید دھچکا دیا۔ امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں تاریخ کی بد ترین مہنگائی کا سامنا ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان ایسی نا اہل ٹیم سامنے لائے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ جانتے ہوئےکہ پچھلے ادوار میں ملک کے ہر ادارے میں اوپر سے نیچے تک سیاسی جماعتوں کے زرخرید بھرتی کیے ہوئے ہیں، بغیر ادارہ جاتی اصلاحات کے انہی لوگوں پر اعتماد کرنا کہ وہ آپ کی پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے، ایک نہایت بے وقوفانہ عمل تھا۔ یہی لوگ اس مافیا کا حصہ تھے جس کا ذکر عمران خان اکثر کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے جس مسئلے پر نظر ڈالی انہی بکاؤ لوگوں نے اس مسئلے کو مزید بگاڑ ڈالا، چاہے وہ چینی کا مسئلہ ہو یا آٹے کا۔
اور یہی اپوزیشن ہے جس نے پانامہ لیکس کے بعد ایسے شرمناک معاہدے کیے جن سے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جیسے کہ ایل این جی کے معاہدے۔ اور اپنے دورِ حکومت میں اتنا قرض لیا کہ جس کی ادائیگیاں اور سود ان کے دورِ حکومت کے بعد ادا کرنا تھا اور اسی چیز نے عمران خان کی حکومت کو مالی مشکلات میں مبتلا کیے رکھا۔
نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں میں بھی انہی لوگوں نے کرپٹ عناصر کے خلاف مقدمات میں ایسی غلطیاں کیں اور ایسے سقم چھوڑے کہ آج تک کسی کو کوئی سزا نہیں مل سکی۔ اوپر سے ایسے نکمے وزراء جنہوں نے نہ تو گورننس پر توجہ دی اور نہ ہی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنے کی کوشش کی۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب 2018 میں ڈالر کی قیمت ایک دم اوپر اٹھی اور مہنگائی ہوئی تب تو اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا نہیں سوچا حالانکہ عوام پر مہنگائی کا بم تازہ تازہ گرا تھا۔ اور تب سے 2022 تک ساڑھے تین سال کے عرصے میں مہنگائی بڑھتی رہی لیکن کبھی بھی اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا نہیں سوچا
دکھ کی بات یہ ہے کہ کرونا اور پھر روس یوکرین جھگڑے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں تیل سمیت بہت سی مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ کرونا کی وجہ سے جن ممالک کی معیشت زیادہ برباد ہوئی وہ تو اسلحہ بیچ کر یوکرین کی جنگ سے اپنا نقصان پورا کر رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کا ان معاشی اور مالی مسائل سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔
اور کسی بھی اپوزیشن جماعت کے پاس مہنگائی اور مالی مسائل سے نمٹنے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو صاف ہے کہ اپوزیشن جو مبینہ طور پر ”عوام کو ریلیف“ دینے کے لیے تحریکِ عدم اعتماد پیش کر رہی ہے وہ جھوٹ کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں۔
عالمی معاشی بحران کے باوجود حکومت نے فروری میں تیل کی قیمت 10 روپے کم کی اور بجلی کی قیمت میں بھی 5 روپے کی کمی کی حالانکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پچھلے 35 سال میں پہلی دفعہ پاکستان میں زراعت ترقی کر رہی ہے، کسان کو اپنی محنت کا پھل مل رہا ہے۔ ٹیکسٹائل کی انڈسٹری پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی فل استطاعت پہ کام کر رہی ہے۔ پچھلے 50 سال میں پہلی دفعہ پاکستان میں پانی کی کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت کا صحت کارڈ پروگرام بھی غریبوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ بلاشبہ ابھی اس پروگرام کو بہتر بنانے کے کئی مواقع موجود ہیں، سارے ہسپتال بھی غریبوں کو دی گئی اس سہولت سے کچھ زیادہ خوش نہیں اور کئی جگہ لوگوں کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ صحت کارڈ سے فائدہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اپوزیشن کی ایک ہی رٹ ہے کہ مہنگائی سے بچانے کے لیے عمران خان کی حکومت گرانا بہت ضروری ہے۔ اس بے موقع کے الاپ کی وجہ سے عوام پر اپوزیشن کی نیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔
ابھی کل ہی مسلم لیگ (ق) کے رہنما کا انٹرویو سنا۔ موصوف فرما رہے تھے کہ تحریکِ عدم اعتماد کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، سیاست تو نام ہی کچھ لو اور کچھ دو کا ہےاور عمران خان کچھ لینے دینے کی بات ہی نہیں کرتے۔ یعنی عوام گئی بھاڑ میں بس انہیں ایک صوبے کی وزارتِ اعلی دے دی جائے۔
اس سے اندازہ لگا لیں کہ کیا واقعی مہنگائی اس تحریکِ عدم اعتماد کی وجہ ہے۔ یہ تو اب ایک معمول بن گیا ہے کہ اپوزیشن اور سیاسی رہنما مستقبل کی ایک خوفناک تصویر پیش کر کے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر وقت گزارتے رہتے ہیں کوئی حل نہیں پیش کرتے۔ اگر معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو اسے عوام کے سامنے پیش کر کے عوام کے ذہنوں میں آنے والے کچھ سوالات کے جوابات دیے جائیں۔
تحریکِ عدم اعتماد کی دوسری وجہ – خارجہ پالیسی
اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ عدم اعتماد کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی خارجہ پالیسی نظر آتی ہے۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے ہی سے اپنے فوجی اڈے امریکہ کو دینے اور امریکہ کی افغانستان جنگ میں حصہ بننے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ عمران خان ہی وہ واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے امریکہ کی پاکستان پر ڈرون حملوں کی مخالفت کی تھی جبکہ اس وقت اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں نے امریکہ کو باقاعدہ تحریری اجازت دی تھی پاکستانیوں پر ڈرون حملے کرنے کی۔
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی امریکہ کی افغانستان سے متعلق پالیسیوں کی مخالفت کی اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور افغانستان میں امن کی کوششوں پر زور دیا۔ جب حالات اور اپنی ناکامیوں کے نتیجے میں امریکہ کو افغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا اور امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ کیا تا کہ دور سے افغانستان میں طالبان پر حملے کر سکے تو وزیراعظم عمران خان نے ”بالکل نہیں“ (Absolutely Not) کہہ کر انکار کر دیا۔ یہیں سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے اندازہ لگا لیا کہ عمران خان کے رہتے ان کی دال نہیں گلے گی۔
دکھ کا مقام یہ ہے کہ مذہب کے نام پہ سیاست کرنے والے اور اپنے مغربی آقاؤں کو ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم پاکستانیوں کے قتلِ عام کی تحریری اجازت دینے والے، امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک رسائی کا وعدہ کرنے والے جس عمران خان کو یہودی ایجنٹ، مغربی مہرہ کہتے ہیں وہ دنیا کا واحد رہنما ہے جس نے ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان کو پوری دنیا کے آگے بہترین انداز میں پیش کیا اور دنیا کو اسلاموفوبیا کے بارے میں مدلل انداز میں سمجھایا۔
عمران خان نے کوئی اور اچھا کام کیا ہو یا نہ ہو، یہ ایک کام ایسا ہے کہ رہتی دنیا تک اسے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اقوامِ متحدہ نے عمران خان کی پیش کی گئی اسلاموفوبیا کی خلاف قرارداد منظور کرتے ہوئے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے تدارک کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ نام نہاد مذہبی رہنما جو اسلام کے نام پہ سیاست کرتے ہیں وہ اسلاموفوبیا کے خلاف دنیا میں آواز بلند کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اب بھی وہ ڈھیٹ بن کر عمران خان کو ہی یہودی اور قادیانی ایجنٹ کہتے ہیں بلکہ تحریکِ عدم اعتماد کے جواز میں ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عمران خان نے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ملک میں مذہب کے خلاف کام کیا ہے اور اسلام کو بچانے کے لیے عمران خان کو حکومت سے ہٹانا ضروری ہے۔
بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ مذہبی سیاسی رہنما پھول لے کر عمران خان کے پاس جاتے اور یہ تسلیم کرتے کہ جو کام ہم اپنی پوری زندگی میں اس مذہب کے لیے نہ کر سکے جس کے نام پہ ہم سیاست کرتے ہیں آپ نے وہ کر دکھایا۔
ایک طرف امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی ترقی سے ڈر کر اس کے خلاف بھارت کو استعمال کررہا ہے وہیں وہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا جا رہا ہے کہ چین کا ساتھ چھوڑ کر امریکہ کی چین مخالف پالیسیوں کا ساتھ دے۔ دوسری طرف امریکہ اپنی معیشت کو بچانے (اسلحہ بیچ کر) اور روس کو چین سے دور کرنے کے لیے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کروا رہا ہے اور اپنے یورپی دوستوں کے ساتھ مل کر پہلے تو عمران خان کو روس کا دورہ کرنے سے روکنا چاہا پھر خط لکھ کر پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان روس کے خلاف بیان دے۔
پہلی دفعہ ایک پاکستانی رہنما کو امریکہ کو انکار کرتے سنا کہ پاکستان کسی بھی جنگ میں امریکہ اور اس کےا تحادیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا لیکن امن کے لیے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حال کرنے کے لیے پاکستان سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہےاور پاکستان کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔
عمران خان کی اس غیر جانبدارانہ پالیسی کے خلاف امریکہ شدید غصے میں ہے کیونکہ پاکستان میں ایک غلام اور پٹھو حکومت کے بغیر اس کے بیشتر مفادات پورے نہیں ہو پا رہے۔ اسی لیے امریکہ اور مغربی ممالک کے سفیروں نے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر انہیں اس بات پہ ابھارا کہ کسی بھی طرح عمران خان کی حکومت کو گراؤ۔ ہم تمہیں مورل سپورٹ بھی دیں گے اور جتنا پیسہ چاہیے تحریک انصاف کے ممبرز کو خریدنے کے لیے وہ بھی دیں گے اور باہر کے ملکوں میں جو تمہارا پیسہ پڑا ہے اس کی بھی حفاظت کریں گے۔
غیر ملکی دباؤ اور مغربی آقاؤں کی غلامی فوری طور پر تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت کو ایک مضبوط اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر اس کا ساتھ دیتے، اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ ہمیں آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت نہیں ہے، عمران خان نے بلا وجہ ہمارے مغربی دوستوں کو ناراض کر دیا ہے۔
ایک عام آدمی اس بات کو سمجھتا ہے اور اسی لیے حالیہ ہونے والے جلسوں میں عمران خان کو جس طرح عوامی پذیرائی ملی ہے اس کی توقع اپوزیشن میں بیٹھی کسی جماعت کو بھی نہیں تھی۔
تحریکِ عدم اعتماد کی تیسری وجہ – کرپشن مقدمات
سوچنے کی بات ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والی جماعتوں کی قیادت کی اکثریت کرپشن مقدمات میں ملوث ہے اور مزے کی بات یہ ہے کی یہ کیس عمران خان نے نہیں بنائے بلکہ انہی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ اور اب یہ ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر بنے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مل کر کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ اسی کو کہتے ہیں تھوکے ہوئے کو چاٹنا۔
زیادہ تر مقدمات اپنے منطقی انجام کو پہنچتے نظر آ رہے تھے اور یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ کچھ عدالتی اصلاحات بھی کی جا رہی ہیں اور نیب پراسیکیوٹرز کی تعداد اور قابلیت میں بھی اضافہ کیا جا رہا تھا جس سے ان مقدمات کا فیصلہ کرنے میں تیزی آئے گی۔
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے کئی موقعوں پر حکومت کو بلیک میل کر کے نیب قوانین میں نرمی اور مقدمات کے مکمل خاتمے کے مطالبے کیے۔ ایک مذہبی رہنما نے تو دھمکی لگا دی کہ اگر اسے نیب میں بلایا گیا تو وہ لاکھوں لوگوں کے ہمراہ نیب پر دھاوا بول دے گا۔ جب کسی طرح کوئی بات نہ بنی بلکہ یہ نظر آنے لگا کہ اب شائد بچت کا کوئی راستہ نہیں رہی گا تو سب کرپٹ لوگوں نے مل کر تحریکِ عدم اعتماد لانے کی سوچی۔
اگر کرپشن کی بات کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کی کرپشن تو عمران خان کے دور میں بھی ہوئی ہےاور عمران خان کے ارد گرد موجود موقع پرست لوگوں نے عمران خان کو غلط خبریں پہنچا کر بے انتہا فائدہ اٹھایا لیکن دوسری حکومتوں کی نسبت کم کرپشن ہوئی اور کسی حد تک کرپشن کرنے والوں کو کم از کم مستعفی ہونا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو اپنی ضد اور انا سے ہٹ کر سخت فیصلے کرنے ہوں گے اورخود کو ان کرپٹ عناصر کے شکنجے سے نکالنا ہو گا۔
تحریکِ عدم اعتماد کی چوتھی وجہ – الیکشن اصلاحات
بے شمار پاکستانی دوسرے ممالک میں نوکریاں کرتے ہٰیں اور پاکستان اپنے خاندانوں کو پیسے بھجواتے ہیں۔ یہ ریمیٹنس پاکستان کی معیشت میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن آج تک کسی حکومت نے پردیس میں رہنے والے ان پاکستانیوں کو ووٹ کا بنیادی حق دینے کے بارے میں نہیں سوچا۔
عمران خان وہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو نہ صرف ووٹ بلکہ اسمبلیوں میں سیٹیں دلوانے پہ کام کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔
مختلف سرویز کی مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کو سپورٹ کرتی ہے اور اگر انہیں ووٹ ڈالنے اور اسمبلی میں بیٹھنے کا موقع مل گیا تو اگلے الیکشن میں کوئی بھی جماعت تحریکِ انصاف کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
اس کے علاوہ حکومت نے اگلے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرنے کا عندیہ دیا۔ اس بات پر تو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نے بھی اتنا واویلا کیا کہ ہر باشعور انسان کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ الیکشن میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے کئی رہنماؤں نے ٹی وی پر اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے ہر الیکشن میں دھاندلی کی اور یہ ایک عام بات ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں الیکشن کمیشن کوئی غیر جانبدار ادارہ نہیں ہے بلکہ پچھلی حکومت اور اپوزیشن نے مل کر ایسے لوگوں کو منتخب کیا ہوا ہے جنہیں ان جماعتوں نے خرید رکھا ہوتا ہے۔ اب کھایا ہوا مال حلال کرنے کے لیے ایکشن کمیشن ہر اس کام میں روڑے اٹکانا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جس سے عوام کو کوئی فائدہ ہو یا انتخابات میں دھاندلی کو روکا جا سکے، یا جس سے ان کو منتخب کرنے والی اور پیسہ کھلانے والی جماعتوں کے مفادات پر کوئی ہلکی سی بھی ضرب لگے۔
اگر آپ میں سے کسی نے ان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں پڑھا ہو جن کے استعما ل کا فیصلہ حکومت نے کیا ہے تو آپ کو پتا ہو گا کہ ان کو ہیک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کسی بھی طرح انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہوتیں۔
لیکن ان مشینوں کو جانے بغیر الیکشن کمیشن نے ان مشینوں پر کوئی 37 ایسے مضحکہ خیز اعتراضات لگائے کہ جن کو پڑھ کر کوئی بھی آئی ٹی کا علم رکھنے والا اور ان مشینوں کی بنیادی کارکردگی جاننے والا ہنسے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اور افسوس بھی کرے گا کہ جس ملک کے ادارے اس قدر نااہل اور جدید ٹیکنالوجی سے اس قدر لاعلم ہوں گے تو اس ملک کا کیا حال ہو گا۔
ایسے اقدامات جن سے آنے والے الیکشن میں دھاندلی سے جیتنے والی جماعتوں کو خطرہ ہے، ان کی وجہ سے سب جماعتیں مل کر تحریکِ عدم اعتماد لائی ہیں تا کہ اپنی سیاست کے مستقبل کو کسی حد تک محفوظ کیا جا سکے۔
تحریکِ عدم اعتماد کی پانچویں وجہ – فوج کو لگام
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سلامتی ہماری فوج کے مرہونِ منت ہے۔ بد قسمتی سے ماضی میں فوج سیاست کے گندے کھیل میں ملوث رہی ہے بلکہ آج کے جتنے کرپٹ سیاستدان ہیں ان کو آگے لانے میں فوج کا کوئی نہ کوئی کردار رہا ہے۔
خوش قسمتی سے پچھلے کچھ سالوں سے فوج نے خود کو سیاست سے الگ کیا ہے اور شائد اسی وجہ سے پاکستان کی فوج کے خلاف پرو پیگنڈا بہت بڑھ گیا ہے۔ اس میں کئی بکاؤ صحافی اور پاکستان مخالف سیاسی قوتیں شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں کیونکہ فوج کی وجہ سے ہی ہمیشہ حکومت میں آتی رہی ہیں تو ان کو سب سے زیادہ خطرہ فوج سے ہی ہے۔
آپ مختلف ممالک کے حالات اٹھا کر دیکھ لیں وہاں مغربی ممالک نے پہلے معاشی حالات خراب کیے اور پھر وہاں کی عوام کو فوج کے خلاف بھڑکایا جس سے ان ممالک کے حالات خراب ہوئے اور پھر انہی مغربی ممالک نے وہاں اپنی افواج بھیج کر ان ممالک کو تباہ کر دیا۔ اب بھی ان ممالک میں مختلف گروپس کو اسلحہ فراہم کر کے نہ صرف یہ ممالک پیسہ بنا رہے ہیں بلکہ وہاں امن بھی نہیں ہونے دیا جا رہا۔
امریکہ ہمیشہ ہی پاکستانی فوج سے خائف رہا ہے اور پاکستانی فوج کے ذریعے ہی اس نے افغانستان میں روس کو شکست دلوانے کے لیے افغان جنگجوؤں کی تربیت کی تھی۔ہمارے گذشتہ حکمران بھی اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے فوج سے پنگے لیتے رہے ہیں حتیٰ کہ اپنے ملک اور فوج کو بدنام کرنے کے لیے ہر حد تک گرنے کو تیار رہے ہیں۔
اب ایک تو فوج غیر جانبدار ہے اور دوسرا نومبر میں عمران خان نے نئے آرمی چیف کو منتخب کرنا ہے ۔ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اگر نیا آرمی چیف عمران خان نے منتخب کیا تو ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گا خاص طور پر اگر جنرل فیض حمید کا انتخاب ہو گیا۔اپوزیشن عمران خان کو ہر صورت میں نیا آرمی چیف منتخب کرنے سے روکنا چاہتی ہے اور یہ تحریکِ عدم اعتماد لانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
ایک مذہبی سیاستدان تو میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے روانی میں کہہ گیا کہ ہم اقتدار میں آ کر فوج اور اداروں کو لگام ڈالیں گے اور ان کے کردار کو محدود کریں گے۔ امریکہ اور اس کے حواری ہمیشہ سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بد قسمتی سے اس وقت اپوزیشن کے تمام بڑے قائدین امریکہ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے بے تاب ہیں بشرطیکہ انہی حکومت کرنے کا موقع دیا جائے۔
تحریکِ عدم اعتماد کے متعلق میری رائے
ویسے تو شائد کئی اور وجوہات بھی ہوں جس کی وجہ سے تمام اپوزیشن بادی النظر میں متحد ہو کر تحریکِ عدم اعتماد لائی ہے لیکن ایک عام پاکستانی کے نزدیک یہی وجوہات زیادہ قرینِ قیاس ہیں۔ اپنی رائے بتانے سے قبل یہ بتاتا چلوں کہ میں بھی عمران خان کی کئی پالیسیوں کے خلاف ہوں، ان کے وزراء اور مشیران کی نااہلی پہ دکھی ہوں، مہنگائی کا مارا ہوا ہوں اور دن بدن اس مہنگائی میں زندگی گزارنا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔
لیکن ایک پڑھا لکھا شخص ہونے کے ناطے میں سمجھ سکتا ہوں کہ عمران خان حکومت میں آتے ہی ایسے حالات کا شکار رہا کہ اس مہنگائی کا مکمل الزام اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان نے ایسے مالی مشیر منتخب کیے جو پاکستان سے زیادہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے خیر خواہ تھے اور جن کو عام آدمی کی مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں تھا
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عمران خان کرپشن کا خاتمہ کرنے، کرپٹ لوگوں کو سزا دلوانے اور مافیاز کا احتساب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ سرکاری افسران، ججوں اور کئی وزراء کی عیاشیاں ختم نہیں ہوئیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں تنخواہوں سے زیادہ مراعات نے ہمارے مالی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے۔
پنجاب جیسے بڑے صوبے میں نا اہل لوگوں کو آگے لایا گیا جس نے گورننس کے مسائل میں مزید اضافہ کیا۔
لیکن پہلی بار پاکستان ایک نسبتاً بہتر راستے کی طرف گامزن نظر آتا ہے، خارجی لحاظ سے ایک آزاد ملک لگ رہا ہے، اور اب آہستہ آہستہ ملک کے معاشی حالات میں بھی سدھار آنا شروع ہو چکا ہے۔ دوسرے ممالک عمران خان سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس کا احترام کرنے پر مجبور ہیں۔ جب سب چور ڈاکو اور دشمن قوتیں ایک شخص کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ کچھ تو یہ شخص ٹھیک کر رہا ہے جس کی وجہ سے سب کو تکلیف ہو رہی ہے
رکھ رکھاؤ اور وفاداری کے لیے مشہور لوگوں کا لالچ، مذہب کے نام پہ سیاست کرنے والوں کی خود غرضانہ خواہشات، دوسری پارٹیوں سے آئے لوگوں کے دلوں کا میل نظر آنے لگا ہے. وفا داریاں اور ضمیر بک رہے ہٰیں۔ ٹی وی پر اپوزیشن کے رہنما تسلیم کر رہے ہیں کہ لوگوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہے اور ایسا تو ہوتا ہی ہے. ٹی وی پر تو 20 کروڑ کا ریٹ بتایا جا رہا ہے لیکن خبر ہے کہ پچھلے 3 دن میں ایک ایم این اے کا ریٹ 2 ارب تک جا پہنچا ہے۔
مذہبی جماعتوں، وکلاء تنظیموں، ٹریڈ یونینز، صحافیوں، ٹی وی چینلز کے ساتھ غیر ملکی سفیر ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ان کو اکسا رہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، کتنا بھی پیسہ خرچ ہو، کچھ بھی چاہیے سب ملے گا بس کسی طرح عمران خان سے جان چھڑاؤ۔ 50 ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے اداروں خاص کر فارن آفس میں زیادہ تر لوگ دہری شہریت کے مالک ہیں اور ان پر خاص دباؤ ڈال کر غیر ملکی سفیر اس طرح کے گھٹیا اور غیر سفارتی کام کر رہے ہیں اور پاکستانی فارن آفس کسی قسم کا ایکشن نہیں لے رہا۔ الیکشن کمیشن نے بھی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے تا کہ کھایا پیا حلال کیا جا سکے۔
میں پاکستان کا ایک پڑھا لکھا لیکن عام شہری ہونے کے ناطے یہ کہنے پہ مجبور ہوں کہ اس وقت تحریکِ عدم اعتماد لا کر اپوزیشن نے ملک دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ جتنا پیسہ لگ چکا ہے اور سیاست کو جتنا گندا کھیل بنا دیا گیا ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن میری دلی تمنا ہے کہ یہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو۔
عمران خان کو ڈٹے رہنا چاہیے، کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آنا چاہیے۔ اور تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنا کر سختی سے ملک دشمنوں اور کرپٹ عناصر کے خلاف شکنجہ کسنا چاہیے۔ مفاد پرست مشیروں سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ وزراء پر کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سختی کرنی چاہیے۔ جلد از جلد پنجاب میں بہتر کارکردگی والے لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔
اگر خدانخواستہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو عمران خان کو فوراً استعفے دے دینا چاہیئں تا کہ جلد از جلد دوبارہ الیکشن ہو سکیں ورنہ یہ اپوزیشن ملک کو اس طرح برباد کر جائے گی کہ شائد دوبارہ اسے سیدھے راستے پر لانا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں، دشمنوں اور غداروں سے محفوظ رکھے، ہماری ساری مشکلات کو ختم کر کے ہمیں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر قائم اور دائم رکھے۔ آمین
پاکستان زندہ باد
