نیا سال 2024ء مبارک
نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے- میری طرف سے سب کو نیا سال 2024ء مبارک۔اللہ تعٰالٰی اس سال کو سب کے لۓامن، ترقی، خوشحالی، صحت اور سلامتی کا سال بنائے۔۔ آمین۔
گزرنے والا 2023 کا سال مسلمانوں کے لیے بہت مشکل رہا۔ پاکستان کی معیشت برباد کر دی گئی، آئین اور قانون کو پامال کیا گیا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو روندا گیا، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی، عوام کا جینا دوبھر ہو گیا، ملک میں فسطائیت کا راج رہا، عدلیہ اور ادارے بے وقعت ہو گئے، بلاشبہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین سال تھا۔ امید ہے کہ نیا سال پاکستان کے لیے ترقی، استحکام، آئین اور قانون کی بالادستی اور عوام کے لیے خوشحالی لے کر آئےگا۔ آمین
فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جو ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے ان کے بارے میں سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران اپنے ذاتی مفادات میں اس قدر کھوئے رہے کہ نہ تو فلسطینیوں کی مدد کی اور نہ ہی کشمیر کے مسلمانوں کے لیے کچھ کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس نئے سال میں فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کے مصائب اور مشکلات میں کمی فرمائے۔ آمین
ذاتی طور پر بھی 2023 کا سال مشکلات سے گھرا رہا۔ سال کے آخری مہینوں میں صحت کے حوالے سے شدید پریشانی کا شکار رہا۔ زندگی میں پہلی دفعہ ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔ خراب صحت، کچھ دوسرے مسائل اور دن بہ دن بڑھتی مہنگائی کے سبب معاشی حالات بھی تنگ رہے۔
اس لئے میری دعا ہے کہ ”اے اللہ ! اس سال کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی، صحت، خوشحالی، شیطان سے بچاؤ اور اپنی رضامندی کے ساتھ داخل فرما۔ ہم سب کی مشکلات کو دور فرمااور ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے ملک پاکستان کو چوروں، لٹیروں، غداروں، دہشتگردوں اور ظالموں سے محفوظ فرما۔ دنیا میں جہاں جہاں لوگ مشکل میں ہیں، جہاں مسلمان آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، خاص طور پر فلسطین کے مظلوم لوگوں پر جو ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اُن کی مدد فرما۔ آمین“۔
سرفراز سید کی ایک نظم یاد آ گئی۔ پیشِ خدمت ہے
آس نگر میں رہنے والے سادہ سچے لوگو
نیند کا موسم بیت گیا ہے اپنی آنکھیں کھولو
کل کیا کھویا کل کیا پایا آؤ حساب لگائیں
آنے والا کل کیا ہوگا آؤ نصاب بنائیں
جانے والے کل میں ہم نے دکھ کے صحرا دیکھے
آش نراش میں گھلتی دیکھی غم کے دریا دیکھے
سوکھے جسموں والے دیکھے بھوکے ننگے سائے
لمحہ لمحہ رینگ رہے تھے سب کشکول اٹھائے
جانے والے کل میں ہم نے دستاروں کو بیچا
اونچے ایوانوں میں ہم نے سیپاروں کو بیچا
جانے والے کل میں ہم نے دکھ کی فصل کو کاٹا
بستی بستی بھوک افلاس کی اڑتی خاک کو چاٹا
خالی ہاتھ اور ویراں آنکھیں پاؤں زنجیر پڑی
چاروں جانب زہر سمندر سر پہ دھوپ کڑی
دھرتی پر بارود اگایا امن کے گانے گائے
ایک دوجے کے خون سے ہم نے کیسے جشن منائے
آنے والا کل کیا ہوگا آؤ کھوج لگائیں
دیواروں پہ زائچے کھینچیں نا معلوم کو پائیں
آنے والے کل میں شاید خوابوں کی تعبیر ملے
بھوکی خلقت رزق کو دیکھے انساں کو توقیر ملے
بچوں کی تعلیم کے نام پہ ماں نہ زیور بیچے
اس دھرتی پر اب نہ کوئی زہر سمندر سینچے
آس نگر میں رہنے والے سادہ اچھے لوگو
ممکن ہو تو کل کا سوچو اپنی آنکھیں کھولو