مِنی بجٹ ۲۰۲۲ – حکومتی نا اہلی کی ایک اور سزا عوام کے لیے
حکومت نے ضمنی مالیاتی بل یا منی بجٹ کی شکل میں پاکستان کی عوام پر مہنگائی اور مشکلات کا ایک اور بم گرا دیا ہے۔ منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جنھیں پورا کر کے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی اگلی قسط کے لیے پاکستان کا کچھ پیشگی اقدامات اٹھانا لازمی ہے جن میں ایک سٹیٹ بینک آف پاکستان کا خود مختاری کا بل ہے اور اس کے ساتھ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔
یہ خبر سننے میں مضحکہ خیز لگی کیونکہ چند دن قبل ہی خبر پڑھی تھی کہ ایف بی آر نے مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں اپنے ہدف سے ۲۶۲ ارب زیادہ ٹیکس وصول کیا، اس خبر کو حال ہی میں ایکسپریس نیوز اور دیگراخبارات نے بھی شائع کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سے سوال کیا جاتا کہ جب ہدف سے زیادہ ٹیکس پہلے ہی وصول کیا جا رہا ہے تو اس اضافی منی بجٹ کی کیا ضرورت تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کا بل حکومت کو بینک سے قرض لینے پر پابندی لگاتا ہے۔ قرض نہ لینا تو اچھی بات ہے کیونکہ پہلے ہی اندرونی قرضے بہت بڑھ چکے ہیں لیکن پاکستانی حکومت میں موجود آئی ایم ایف کے ملازمین ہر نقصان دہ کام کسی اچھے کام کی آڑ میں ہی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل کا سیاہ رخ یہ ہے کہ اس بل سے آئی ایم ایف کو پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی میں عمل دخل کا قانونی اختیار مل جاۓ گا جو ہماری قومی سلامتی کے لۓ بہت بڑا خطرہ ہے۔ حیرت ہے کہ مقتدر حلقوں نے قومی سلامتی پر اتنے بڑے خطرے پر نہ تو کوئی ردِ عمل نہیں دیا اور نہ ہی اس کے مضمر اثرات سے نمٹنے کی کوئی حکمتِ عملی ترتیب دی گئی ۔
نئے ٹیکسوں سے حکومت اپنے وزراء اور سرکاری افسروں کی عیاشیوں کے لئے عوام کا خون نچوڑ سکتی ہے، آئی ایم ایف سے ایک ارب قرض کی قسط بھی لے سکتی ہے مگر اس سے ملک کے معاشی بحران کے کم ہونے یا ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ منی بجٹ پی ٹی آئی کے اگلے عام انتخابات میں کامیابی میں بھی رکاوٹ بنے گا اور اسی لیے اپوزیشن نے بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا بلکہ یہ بل منظور کروانے میں خفیہ طور پر حکومت کی مدد بھی کی۔
منی بجٹ میں کیا ہے؟
حکومت کی جانب سے پیش کیے جائے والے منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد کر دیا گیا ہے اور تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔
کیا منی بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا؟
جہاں تک میری ذاتی راۓ ہے تحریک انصاف کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہیں زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بنک دونوں کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری افسران وزیروں کی نا اہلی سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بجٹ کی پالیسیز پر عملدرآمد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ قیمتوں کی دیکھ بھال کرنے والی کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔
اس بجٹ میں ایک تو 200 سے 250 ارب ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا گیا ہے۔ دوسرا توانائی پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے اس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جب توانائی کی قیمت بڑھتی ہے تو باقی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو بھی گیا ہے۔ٹیکس بڑی گاڑیوں پر لگا لیکن کمپنیوں نے 1000 سی سی اور اس سے کم کی گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے منی بجٹ آنے کے بعد۔
ایسی ایسی مضحکہ خیز توجیحات بیان کی جا رہی ہیں کہ سن کر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو کیسے لوگ چلا رہے ہیں۔مثال کے طور پر حکومت کے خیال میں بیکرٰی آئٹمز صرف امراء استعمال کرتے ہیں۔ پیکٹوں میں مصالحہ جات کا استعمال بھی صرف امراء کرتے ہیں۔ ادویات کے استعمال کا حق بھی صرف اشرافیہ کو ہے۔ خام مال پر ٹیکس چھوٹ ختم کر کے اور سیلز ٹیکس بڑھا کر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ صنعتکار اپنا منافع کم کر لےگا اور پیداواری لاگت میں اضافے کو عوام سے وصول نہیں کرے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ اس منی بجٹ کی منظوری کے بعد لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئے گی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائے گا۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے عوام کا خون نچوڑ کر غریب کی جیب سے دو ارب ڈالر نکلوانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ دوسری حکومتوں کی طرح اس حکومت نےبھی امراء اور اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنے اور حکومتی اور سرکاری افسران کی عیاشیوں کو کنٹرول کرنے کی بجاۓ عوام کو ہی مشقِ ستم بنانے پر زور رکھا ہوا ہے۔ اللہ ہم سب کے حال پہ رحم فرماۓ۔ آمین