منڈی لگی ہوئی ہے ”عدم اعتماد“ کی
کسی بھی امیدوار کو الیکشن سے پہلے اپنی پارٹی میں شامل کرنا یا کسی جیتے ہوئے آزاد امیدوار کو (جو کہ روایتاً/ ضرورتاً خود بھی) شامل کرنا آئینی اور اخلاقی طور پہ کوئی برا نہیں۔ جبکہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پہ الیکشن جیتے ہوئے شخص کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ جو کہ اخلاقی اور آئینی طور پہ غلط ہے۔
بہت سے (خود ساختہ/ ن لیگی سپورٹر) عقلمندوں نے(جب سے ووٹ کو عزت دو کے نعرہ لگانے والوں نے اس ہارس ٹریڈنگ کو شروع کیا) کئی دنوں سے ان دونوں اعمال کو ایک جیسا ثابت کرنے میں اپنی تشریف تک کا زور لگا دیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ایک منڈی لگی ہوئی ہے جہاں عدم اعتماد کے لیے ضمیر، ایمان اور وفاداریوں کو کروڑوں اربوں کے بھاؤ بیچا جا رہا ہے۔ مجھے ایک امریکی سینیٹر کی بات یاد آ گئی جس نے کہا تھا ” کئی پاکستانی سیاستدان ایسے ہیں جو پیسوں کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دیں“۔ اسی ضمن میں خالد عرفان صاحب کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔
منڈی لگی ہوئی ہے ”عدم اعتماد“ کی
قسمت چمک گئی ہے اب اسلام آباد کی
منڈی لگی ہوئی ہے ”عدم اعتماد“ کی
لگتی ہیں بولیاں جب اسمبلی کے گیٹ پر
بکتے ہیں سب ضمیر فروشی کے ریٹ پر
پے منٹ ہو رہی ہے سیاست کے نام پر
کوے بھی بک رہے ہیں عنادل کے دام پر
ووٹر بکے ہوئے ہیں، منسٹر بکے ہوئے
ناقابلِ فروخت ہیں اکثر بکے ہوئے
ڈاکو جو رہ چکا تھا خزانے پہ بک گیا
ورکر غریب رات کے کھانے پہ بک گیا
اِک مولوی تو آم کی پیٹی پہ بک گیا
وہ ”رویت ہلال“ کمیٹی پہ بک گیا
خاتون ایم این اے تھی، وزارت پہ ٹک گئی
لوٹوں کے ساتھ آج صراحی بھی بک گئی
لوٹوں کی جب دکان میں قیمت بہت گری
دو لیڈروں کی سیل پہ اِک رہنما فری
لوٹے جب اپنی قوم کی لٹیا ڈبو گئے
کچھ سیکڑوں کے لوگ کروڑوں کے ہو گئے
خالد عرفان