ستترواں یوم آزادی پاکستان – ایک خیال اور ایک دعا
سب سے پہلے تو میری جانب سے ملک اور پردیس میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کو 77واں یوم آزادی پاکستان مبارک ہو۔
آزادی اللہ تعالی کی ایک بیش قیمت نعمت ہے۔ اس کی قدر وہی جانتے ہیں جو آزادی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے بے تحاشا قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم اپنے مذہبی عقائد کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آزادی کی اس نعمت کی قدر کریں اور اپنے پیارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سر توڑ کوششیں کریں۔
سچ پوچھیں تو میرا یوم آزادی پاکستان پرکچھ کہنے لکھنے کا دل نہیں تھا۔ اس پاک سر زمین کے حصول کی داستانیں تاریخ کے اوراق پر خون سے رقم ہیں، ہمارے بزرگوں کے جذبے، ایثار اور قربانیوں کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ پاکستانی 14 اگست کو یوم آزادی پاکستان مناتے بھی پورے دھوم دھام سے ہیں، سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈیوں سے سارا ملک سجا ہوتا ہے، ٹی وی اور ریڈیو پر سارا دن ملی نغمے گونجتے ہیں، سڑکیں بے ہنگم ٹریفک اور جوش میں ہوش اڑاتے نوجوانوں سے بھری ہوتی ہیں، عمارتوں کو برقی قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اہم سرکاری عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ ہر چیز آزادی کی نوید سناتی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن اگلے ہی دن یوم آزادی پاکستان کا جوش ماند پڑنے لگتا ہے، عمارتوں پر لگے ہلالی پرچم کے آداب بھلا دیے جاتے ہیں۔ سڑکیں اور گلیاں پاک سر زمین کے پرچم کی جھنڈیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ نوجوان ساری رات طوفانِ بد تمیزی مچا کرخوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ قربانیاں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔ ایک دن خوشیاں منا کر کیا ہم آزادی جیسی عظیم نعمت کی صحیح قدر کر رہے ہیں؟
ہمارے بچوں کو کتابوں سے یہ تو رٹا دیا جاتا ہے کہ پاکستان 14 اگست 1947 کو معرضِ وجود میں آیا۔ لیکن علامہ اقبال کے دو قومی نظریے، قائداعظم کی انتھک محنت، بزرگوں کی قربانیوں، جوانوں کے خون ، عورتوں اور بچیوں پر ظلموں کی دل سوز داستانوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں کو تو پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔
یوم آزادی پاکستان کیسے منائیں؟
یوم آزادی پاکستان ہمیں ایک سنہرا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو پاکستان بننے سے قبل برِصغیر کے مسلمانوں کی تکالیف کے بارے میں بتائیں، ان وجوہات سے روشناس کرائیں جن کی بنیاد پریومِ پاکستان 23 مارچ 1940 کو علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کی جدوجہد، انتھک محنت اور قربانیوں کو اجاگر کریں اور آزادی کے حصول میں پیش آنے والی مشکلات اور مصائب سے آگاہ کریں۔ عورتوں اور بچیوں کی ناموس کی المناک داستانوں کے بارے میں بتائیں تا کہ نوجوانوں میں آزادی کی قدر پیدا ہو سکے۔
ہمارے پیارے ملک پاکستان کی بقاء کے لیے نوجوانوں کا آزادی کی جدوجہد اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آزادی کے پچھتر سال بعد بھی ہم ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔
آج پاکستان پر مصیبتوں کے بادل چھا رہے ہیں، دشمن قوتیں ملک غداروں کے ساتھ مل کر اس عظیم دھرتی کو دوبارہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو حکمرانی دے دی گئی ہے جو ذہنی طورپر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی بیرونی طاقتوں کے غلام ہیں۔ باقاعدہ سازش کے تحت ملک کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو جھوٹ بولنے، عوام پر اپنی عیاشیوں کا بوجھ ڈالنے، سازشیں کر کے اداروں کو تباہ کرنے اور اپنے جرائم اور کرپشن کو چھپانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔
کیا ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دے کر یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ کچھ کرپٹ لوگ اس پر قابض ہو جائیں؟ اس ملک کی دولت لوٹ کر بیرونِ ملک جائیدادیں بنا لی جائیں؟ کیا آزادی اس لیے ملی تھی کہ چوروں اور ظالموں کے چند گروہ بیرونی طاقتوں سے مل کر ملک و قوم سے مخلص لیڈروں کو حکومت سے نکال دیں؟ کیا انگریزوں سے چھٹکارا اس لیے پایا تھا کہ ملک کی دولت لوٹ کر انہی انگریزوں کے ملک میں بھاگ کر چھپ جائیں؟کیا دو قومی نظریہ یہی سبق دیتا ہے کی جس قوم سے الگ ہوئے اسی کے ایجنٹوں سے مل کر ملک و قوم کی محافظ فوج کو گالیاں نکالیں؟
ایک چور کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنتے دیکھنا چاہتا ہوں، ایک مجرم کہتا ہے کہ میں اپنی مجرم بیٹی کو وزیراعظم بنوانا چاہتا ہوں۔ ایک منی لانڈرر کہتا ہے میں بھکاری ہوں اور رہوں گا بس مجھے وزیراعظم رہنے دو اور میرے بیٹے کو وزیراعلی لگا دو۔ ایک دین فروش کہتا ہے کہ مجھے ڈیزل کے ٹھیکے ملیں سرکاری مراعات ملیں، میرے رشتہ داروں کو اعلی سرکاری نوکریاں ملیں، ملک کا چاہے بیڑا غرق ہو جائے، جو میری مخالفت کرے وہ کافر اور یہودی ایجنٹ ہے۔
یوم آزادی پاکستان نہ صرف ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے بلکہ یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ ہماری پہچان ہمارے ملک پاکستان سے ہے اور ہمیں اپنے تشخص کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں کرپٹ اور ملک دشمن لیڈروں اور سیاستدانوں سے پاکستان کو بچانا ہے تا کہ ہم مستقبل میں بھی خوشی اور جوش سے یوم آزادی پاکستان منا سکیں، آزاد فضا میں سانس لے سکیں اور خوشحالی کی زندگی گزار سکیں۔
ان حالات میں نوجوانوں کو ہی جدوجہد کر کے آزادی کی نعمت کا تحفظ کرنا ہے۔ اور ملکی ترقی و استحکام کے لیے قائداعظم کے بتائے ہوئے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سخت محنت کرنےکی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں، دشمنوں اور غداروں سے محفوظ رکھے، ہماری ساری مشکلات کو ختم کر کے ہمیں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر قائم اور دائم رکھے۔ تحریکِ پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کے لیے اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنے والے تمام شہداء کے درجات بلند کرے۔ آمین
یوم آزادی پاکستان کے اس موقع پر احمد ندیم قاسمی کا خوبصورت کلام پیشِ خدمت ہے۔