یومِ پاکستان – 23 مارچ کو قراردادِ پاکستان پیش ہوئی
یومِ پاکستان کو ہماری تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی دن قراردادِ پاکستان پیش کی گئی جس سے حقیقی معنوں میں پاکستان کی بنیاد پڑی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی اور بالآخر 14 اگست 1947 کو سات سال کی کوششوں اور قربانیوں کے بعد ہمارا پیارا ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
یومِ پاکستان کی تاریخ
تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ 1940 تک مسلم اکثریتی صوبے ایک آزاد ریاست کے بارے میں کوئی واضح رائے نہیں رکھتے تھے۔ مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تین روزہ سالانہ اجلاس منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) لاہور میں ہوا جہاں اس کی یادگار میں مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی کاروائی 22 مارچ 1940 کو شروع ہوئی۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا۔قائدین نے مختلف موضوعات پر تقاریر کیں۔ آخر میں قائداعظم محمد علی جناح نے ایک طویل فی البدیہہ تقریر کی اور اس دن کی کاروائی اختتام کو پہنچی۔
اپنے افتتاحی خطاب میں قائداعظم نے فرمایا:۔
اگلے دن 23 مارچ 1940 کو اجلاس کی کاروائی سہ پہر 3 بجے شروع ہوئی۔ بنگال کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق المعروف شیرِ بنگال نے قراردادِ لاہور پیش کی۔ اس قرارداد میں ایک سے زائد آزاد ریاستوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ”اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابلِ عمل ہوگااورنہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اورحاکمیت اعلیٰ حاصل ہو“۔
مولوی فضل الحق کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد (خیبرپختونخواہ) سے سرداراورنگ زیب خان، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اوربلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ قرارداد کی حمایت میں تقریریں جاری تھیں کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا اور اجلاس کو اگلے دن تک ملتوی کر دیا گیا۔
اجلاس کی کاروائی 24 مارچ کو دن 11 بجے شروع ہوئی اور رات ساڑھے گیارہ بجے قراردادِ لاہور منظور کی گئی۔ اگر قرارداد کی منظوری میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوجاتی تو یہ قرارداد 24 کے بجائے 25 مارچ کو منظور ہوتی۔
قراردادِ پاکستان کے مصنف اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آپ یونیسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔
یہ قرارداد جب پریس میں شائع ہوئی تو اس پر برِصغیر میں بہت تبصرے ہوئے، مختلف لوگوں نے بیانات دیے، کچھ نے حمایت میں اور کچھ نے مخالفت میں۔ بے شمار کالم لکھے گئے۔ جی الانہ معروف اسکالر اور قائدِ اعظم کی سوانح عمری لکھنے والے اہم مسلم لیگی رہنما تھے، وہ اپنی کتاب ’قائدِ اعظم: ایک قوم کی سرگزشت‘ کے صفحہ نمبر 385 پر لکھتے ہیں:۔
’23 مارچ 1940ء کو لاہور میں اس قرارداد کی منظوری سے ہندو اور کانگرس دہل کر رہ گئے۔ انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا اور انہیں یقین ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو ’خودمختار ریاستوں‘ میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ہندوؤں اور کانگریس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی، ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریے لکھ مارے۔‘
بھارت کے ہندو لیڈروں نے ’’قرارداد لاہور‘‘ کو ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا جسے مسلمانوں نے قبول کر لیا۔ اپریل 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو مسلم لیگ کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔
قراردادِ پاکستان کے بعد کرپس مشن، شملہ کانفرنس، ہندوستان چھوڑ دو تحریک اور کیبنٹ مشن پلان نے کانگریس اور برطانوی ذہنیت کو کھول کر مسلمانوں پر عیاں کر دیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اگر وہ دو سے زیادہ آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو گئے تو ہندوؤں کی چالاکیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
لہٰذا چھ سال کے سیاسی سفر کے بعد مسلمانوں نے ایک متحدہ ملک پاکستان کو اپنی بقا اور آزادی کے لیے لازمی جانا۔ 1946ء میں ایک نئی اور حتمی قرارداد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ 7 اپریل 1946ء کو دہلی میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اسمبلی کے اراکین کا تاریخی کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا۔
’’برصغیر کے مسلمان ایک ایسے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر شعبہ زندگی خصوصاً تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اور جو محض رُسومات، روحانیت اور رواجوں پر مبنی نہیں ہے اور ہندو دھرم فلسفہ کے بالکل متضاد ہے۔ ہندوؤں کے ذات پات پر مبنی فلسفہ نے بھارت کے 6 کروڑ انسانوں کو اُچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہندو ذات پات کا نظام قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے سنہری اُصولوں کے منافی ہے۔
مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے کیونکہ مرکز میں ہندوؤں کی بالادستی ہو گی۔ اس لیے مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان زونز پر مشتمل پاکستان کی آزاد اور خودمختار ریاست بنائے جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کا 1940ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں تحفظ کیا جائے۔‘‘
یومِ پاکستان 23 مارچ کو کیوں منایا جاتا ہے؟
پاکستان میں آئین سازی کا عمل 1956ء میں مکمل ہوا، وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی نے گورنر جنرل سے آئین کی باقاعدہ منظوری کے لیے تاریخ مانگی، گورنر جنرل نے 23 مارچ کا دن چنا، 1940ء سے لے کر 1947ء تک اور آزادی کے بعد بھی 23 یا 24 مارچ کا دن سرکاری طور پر منایا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوا کرتی تھی۔
یہ ایک اتفاق تھا کہ گورنر جنرل نے 23 مارچ کا دن منتخب کیا، جس کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا اور اسے یومِ جمہوریہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کے اس روز کےاجلاس میں قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کا کہیں ذکر نہیں تھا۔
تین سال تک یعنی 1958ء تک 23 مارچ کا دن یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا گیا۔ بدقسمتی سے اکتوبر 1958 میں پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا جس سسے 1956 کا آئین منسوخ ہو گیا۔ اس لیے کابینہ نے دو فیصلے کیے:۔
۱- 23 مارچ کو یومِ جمہوریہ کی بجائے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جائے گا
۲- 14 اگست جسے یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا تھا اسے یومِ آزادی کے طور پر منایا جائے گا
اگرچہ مارشل لاء چند سال کے بعد ختم ہو گیا لیکن تب سے 23 مارچ کو یومِ پاکستان اور 14 اگست کو یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یومِ پاکستان کی تقریبات
آج کے دن یعنی 23 مارچ کو نہ صرف قراردادِ پاکستان پیش کی گئی جس کی روشنی میں برِ صغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ وطن کا خواب شرمندہ تعبیر کیا بلکہ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین بھی منظور ہوا جس میں مملکتِ پاکستان کو دنیا کا پہلااسلامی جمہوری ملک قراردیا گیا۔
ہر سال یومِ پاکستان شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ دن کا آغاز مساجد میں نمازِ فجر کے بعد ملک کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کے لیے خصوصی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ پاک فوج کی طرف سے وفاقی دارالحکومت میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔
کراچی میں قائداعظم جبکہ لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوتی ہے جس میں اعلیٰ حکومتی اور عسکری شخصیات شرکت کرتی ہیں۔
یوم پاکستان کو منانے کیلئے ہرسال 23 مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں مختلف ریاستی اثاثوں کی نمائش کی جاتی ہے۔ اس تقریب کی خاص بات پاکستان کی مسلح افواج کی پریڈ ہے جسے دیکھنے ملک بھر سے لوگ اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس پریڈ میں صدرِ مملکت، وزیراعظم، مسلح افواج کے سربراہان، دیگر اہم سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات اور غیر ملکی مہمان شرکت کرتے ہیں۔
اس سال یعنی 2022 میں 23 مارچ کی پریڈ کئی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو پاکستان نے چائنہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل جنگی طیارے خریدے ہیں جو اس پریڈ میں اپنی فضائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔ دوسرا اسلامی تعاون تنظیم کے 48 ویں اجلاس کا انعقاد پاکستان میں ہو رہا ہے اور 57 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ اور چین کے وزیرِ خارجہ جو پاکستان میں موجود ہیں، یومِ پاکستان کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔
پاکستان ہمارے لیے اللہ کا خصوصی انعام ہے جسے ہمارے آباؤاجداد نے بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا تا کہ یہاں ہم آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اب ہمیں اس کی ترقی اور استحکام کے لیے قائداعظم کے بتائے ہوئے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں، دشمنوں اور غداروں سے محفوظ رکھے، ہماری ساری مشکلات کو ختم کر کے ہمیں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر قائم اور دائم رکھے۔ آمین
پاکستان زندہ باد
۔