ماہ رجب کی فضیلت اور تاریخی واقعات
رجب اسلامی سال کے ساتویں مہینے کا نام ہے۔ اسے رجب المرجب اور اصب بھی کہا جاتا ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور جنہیں حرمت والے مہینے کہا جاتا ہے۔ جو شخص ان مہینوں میں برائیوں سے بچتا ہے اسے باقی مہینوں میں برائیوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے۔ ان میں نیکیوں کاثواب زیادہ اور برائیوں کا گناہ زیادہ لکھا جاتا ہے ۔ اسلام سے قبل بھی رجب کو حرمت والا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔
رجب کے معنی
رجب عربی لفظ ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اسلام سے پہلے اس مہینے میں جنگیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ رجب کے مہینے کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:۔
الاصم (سب سے زیادہ بہرہ):- زمانہ قبل اسلام میں اس ماہ میں جنگ و جدل حرام تھی اور ہتھیاروں کی آواز قطعاً نہیں سنی جاتی تھی۔
الاصب (سب سے تیز بہاؤ):- اس ماہ میں توبہ بڑی جلد قبول ہوتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اسی طرح گناہوں کی سزا بھی زیادہ ہوتی ہے۔
مطہر (پاک کرنے والا):- رجب کو پاک کرنے والا اس لئے کہتے ہیں کہ یہ روزے داروں کے گناہوں اور تمام برائیوں کو پاک و صاف کردیتا ہے۔ اس ماہ میں دعائیں خوب قبول ہوتی ہیں۔
رجب کے بارے میں احادیثِ نبوی ﷺ
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” سال بارہ مہینے کا ہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے ذوالقعد، ذوالحجہ، اور محرم تو مسلسل ہیں اور چوتھا مہینہ رجب مضر ہے (جس کا قبیلہ مضر کے لوگ بڑا احترام کرتے ہیں) اور یہ جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری:۴۶۶۲، ۳۱۹۷،صحیح مسلم:۱۶۷۹)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے روزے پورے نہیں رکھے سواۓرجب اور شعبان کے۔ (اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریمﷺ یوں دعا مانگتے تھے : ”اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما“۔ (اسے امام طبرانی اور امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے)۔۔
حضرت عکرمہؓ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ رجب اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے‘‘۔
امام بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور امام دیلمی نے حضرت ابو امامہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں مانگی جانے والی دعاؤں کومسترد نہیں کیا جاتا۔ شبِ جمعہ، رجب کی پہلی رات ، پندرہویں شعبان کی رات اور عیدین کی راتیں“۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کسی حرمت والے مہینے کے جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے تین روزے رکھ لے، حق تعالیٰ شانہ‘ اس کے لئے نو سو سال کی عبادت لکھ لے گا۔
رجب کے بارے میں بزرگوں کے اقوال
بعض علماء کا قول ہے کہ ’’رجب کا مہینہ دوری (یا ظلم) کو ترک کرنے کیلئے ہے اور شعبان کا مہینہ عمل اور ایفائے عہد کیلئے ہے اور رمضان کا مہینہ صدق اور وفا کے حصول کیلئے ہے۔ رجب توبہ کا، شعبان محبت کا اور رمضان قرب الٰہی کا مہینہ ہے‘‘ ۔
حضرت ذوالنون مصریؒ بیان کرتے ہیں ”رجب مصیبتوں (گناہوں) کو ترک کرنے کیلئے، شعبان اعمال پر اطاعت (عبادات) کرنے کیلئے اور رمضان عزت بخشیوں (کرامات)کے انتظار کیلئے ہے، لہٰذا جس شخص نے گناہ نہ چھوڑے، اطاعت کے کام نہ کئے اور عزت بخشیوں کا اُمید وار نہ ہوا تو وہ خرافات میں مبتلا ہونیوالا ہے“۔
رجب کھیتی بونے کا، شعبان پانی سینچنے کا اور رمضان کھیتی کاٹنے کا مہینہ ہے اور ہر شخص وہی کاٹے گا جو اُس نے بویا ہوگا، لہٰذا بندے کو مکافات عمل سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
امام مازنیؒ نے امام حسینؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’رجب کے روزے رکھا کرو! کیوں کہ اس کا روزہ اللہ کی طرف سے (نازل کردہ) ایک قسم کی توبہ ہے‘‘۔
رجب اور شبِ معراج
شبِ معراج کے بارے میں مختلف روایات ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال کا مہینہ بیان کیا گیا ہےلیکن اکثریت کی راۓ میں رجب کا مہینہ معراج النبی ﷺ کا بھی مہینہ ہے یعنی اسی ماہ کی 27 تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی اور ملاقات کا شرف بخشا۔
یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ سرور کائنات، رحمت اللہ العالمین کے اعلان نبوت کا بارہواں سال مصائب و مشکلات سے گھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے ملاقات کا اہتمام فرمایا۔
قرآن پاک میں بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔
پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل، القرآن)
سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔
سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ النجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو راز کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔
شبِ معراج میں نفلی عبادات انجام دینا احسن اقدام ہے۔ علماء نے رجب اور شبِ معراج میں عبادات پر بہت زور دیا ہے اور بے شمار نوافل اور وظائف کے بارے میں بتایا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شبِ معراج کا اُُمتِ مسلمہ کے لیے تحفہ نماز ہے جو مسلمانوں پر فرض کے گئی ہے اور جسے ہمارے نبی ﷺ نے اپنی آ نکھوں کا نور قرار دیا ہے۔ نفلی عبادات کے شوق میں فرائض سے غفلت نہیں برتنی چاہیے اور اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی کر کے اللہ تعالیٰ کی پیروی اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کا ثبوت دینا چاہیے۔
ماہِ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات
سن پانچ نبوی میں رجب کے مہینے میں ہجرت حبشہ اولیٰ ہوئی‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آ کر رسول اﷲﷺ کی اجازت سے حبشہ روانہ ہوئے۔ مختلف روایات کے مطابق اس قافلہ میں 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ مہاجرین کے اس قافلے کے سالار تھے۔
غزوہ تبوک 9 ہجری ماہِ رجب میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ جو اسلام کے چوتھے خلیفہ اور دامادِ رسول ﷺ تھے، 13 رجب کو اس دنیا میں تشریف لائے ۔
حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔
دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجری سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ‘ 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رجب کے مہینے کے فیوض و برکات سے فائدہ اُٹھانے ، گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین