مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے – علامہ اقبال
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوالِ مکرر میں اے کلیم
شرطِ رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لاۓ جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
علامہ اقبال