رمضان المبارک کی فضیلت، احکامات اور رمضان ۲۰۲۳ کا کیلنڈر
انشاءاللہ تعالیٰ ایک دو روز میں رمضان المبارک کا رحمتوں والا مہینہ شروع ہونے والا ہے اور شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو اس کی عظمت اور برکت سے ناواقف ہو۔ آج کی اس تحریر میں ہم رمضان المبارک کی فضیلت اور چند ضروری احکامات کے بارے میں جانیں گے۔ لیکن سب سے پہلے تو میری طرف سے سب مسلمانوں کو پیشگی رمضان مبارک۔
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس مبارک مہینے کی نعمتوں سے بھرپور انداز میں مستفید ہو کیونکہ کیا پتہ دوبارہ یہ بابرکت مہینہ نصیب ہو یا نہ ہو۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں یہ عظمتوں والا مہینہ ایک بار پھر نصیب ہوا تا کہ وہ اپنی عبادت اور دعاؤں سے اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکیں۔
چشم بار ہو کہ مہمان آ گیا
دامن میں الہی تحفہ ذیشان آ گیا
بخشش بھی، مغفرت بھی،جہنم سے بھی نجات
دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا
رمضان ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہوتا ہے جو شعبان کے بعد آتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مہینہ دیگر ہجری مہینوں کی بہ نسبت بہت خصوصیت اور مقام ومرتبہ والا سمجھا جاتا ہے۔ اس مہینے میں طلوعِ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند کاموں سے اللہ کی رضا اور عبادت کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے جائز کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام ”روزہ “ ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔
رمضان المبارک کی وجہ تسمیہ
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لفظ رَمَضان ہے جس میں ر کے اوپر زبر ہے اور م کے اوپر بھی زبر ہے۔ آئیے اب جانیں کہ اس مبارک مہینے کو ”رمضان“ کیوں کہا جاتا ہے. جب میں نے مطالعہ کیا تو مجھے اس بارے میں 2 روایات ملیں تو وہ میں یہاں بیان کر دیتا ہوں۔
روایت نمبر ۱:۔ رمضان عربی لفظ ”رمض“ سے نکلا ہے جس کے معنی ”دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے یا جھلسا دینے “ کے ہیں۔ اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو رمضا کہتے ہیں۔ اتفاق سے جب پہلی دفعہ مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو یہ مبارک مہینہ شدید گرمی کے دنوں میں آیا اور جب روزوں سے سخت گرمی کا احساس ہوا تو اس مہینے کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔
کیونکہ اس مہینے میں روزے گناہوں کو اس طرح جلا دیتے ہیں جس طرح سورج کی گرمی زمین کی نمی کو جلا دیتی ہے۔ اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:۔
انما سمی رمضان لانہ یرمض ذنوب عباداللہ
(بے شک رمضان کوجونام دیاگیا ہے کیونکہ یہ اللہ کے بندوں کے گناہوں کوجلادیتا ہے)
روایت نمبر۲:۔ رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو اللہ تعالی کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے اور اس مہینے میں اللہ تعالی اپنے بندوں پر مسلسل رحمت کی بارش کرتے ہیں اس لیے اس مہینے کو رمضان کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہے:۔
لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئ و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان
(یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لیے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اللہ کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان۔)
رمضان المبارک کی فضیلت قرآن کی روشنی میں
رمضان المبارک وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا قرآن مجید میں نام آیا ہے اور ان چار مہینوں میں سے ایک ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے جنگ و جدل کو حرام قرار دیا ہے ( البتہ دفاع کی صورت ہو تو جائز ہے)۔ اس مہینہ میں آسمانی کتابیں قرآن کریم، انجیل، تورات، مختلف صحیفے اور زبور نازل ہوئی ہیں۔
سب سے پہلے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں روزے کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ (البقرۃ: 183)
اس کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 184 میں روزوں سے متعلق بنیادی مسئلہ بیان کیا گیا:۔
اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّـذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٝ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْـرًا فَهُوَ خَيْـرٌ لَّـهٝ ۚ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْـرٌ لَّكُمْ ۖ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ
(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانےکا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو (البقرۃ: 184)
اس کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 185 میں رمضان کی نمایاں فضیلت بیان کی گئی کہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا گیا:۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْـهُـدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۗ يُرِيْدُ اللّـٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَۖ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَـبِّـرُوا اللّـٰهَ عَلٰى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ (البقرۃ:185)
اس کے بعد سورۃ القدر میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں شبِ قدر کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ یہی وہ عظیم سلامتی والی رات ہے کہ جس میں قرآن اتارا گیا:۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةِ الْقَدْرِ (1) وَمَآ اَدْرَاكَ مَا لَيْلَـةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَـةُ الْقَدْرِ خَيْـرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَآئِكَـةُ وَالرُّوْحُ فِيْـهَا بِاِذْنِ رَبِّـهِـمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ (4) سَلٰمٌ هِىَ حَتّـٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبریل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی فضیلت کے تین پہلو قرآن پاک میں بیان ہوئے ہیں:۔
سب سے پہلے روزہ جو کہ اسلام کا اہم رکن ہے اور روزہ رکھنے کی سخت تلقین کی گئی ہے۔ روزہ نہ صرف ہمارے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے بلکہ یہ جسمانی صحت کے لیے بھی اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے کہ جس میں ہر سال ہمارے جسم کی صفائی ہو جاتی ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن، جو ہدایت اور انسانی رہبری کی کتاب ہے اور جس نے اپنے قوانین اور احکام کی مدد سے نیکی کو بدی سے، حق کو باطل سے اور صراطِ مستقیم کو برائی کے راستے سے جدا کر دیا ہے اور جو انسان کے لیے بہتر زندگی گزارنے کا دستور لے کر آئی ہے، اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ روایات میں ہے کہ قرآنِ مجید سے پہلے کی تمام عظِیم آسمانی کتابیں جیسے تورات، انجیل، زبور اور صحیفے اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسی مہینے میں شبِ قدر بھی آتی ہے جس میں کی گئی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ حضرتِ سیدنا مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں،آپ ﷺ نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
آئیے اب چند احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جن سے رمضان المبارک کی فضیلت ہم پر کھل کر عیاں ہو جائے گی۔
حدیث نمبر ۱:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جس شخص نے رمضان کی راتوں میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے عبادت کی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جس شخص نے شبِ قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے عبادت کی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم – رقم: 38)
حدیث نمبر ۲:۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔ (سنن نسائی: کتاب الصیام – رقم: 2230، 2231)
حدیث نمبر ۳:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔
آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (سنن ابن ماجہ: کتاب الصیام – رقم: 1638)
حدیث نمبر ۴:۔ ماہِ رمضان کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے جیسے کہ سورۃ البقرہ میں اللہ نے ارشاد فرمایا۔ گناہوں کو چھوڑنا، دل سے نیکی کے کاموں کی طرف مائل ہونا، اور اپنے گناہوں کے انجام سے ڈر کر ان سے بچنے کی کوشش کرنا ہے تقویٰ کہلاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔
اللہ سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرو، اپنے (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو، اپنے حاکموں کی اطاعت کرو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤگے۔ (سنن الترمذی: 616)
حدیث نمبر ۵:۔ رمضان صرف بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم روزے کے اجر اور ثواب کو ختم کرنے والے اعمال مثلاً جھوٹ، بہتان چغلی، غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچیں، خاص طور پر آنکھ اور زبان کی حفاظت کریں۔ اگر ہم درست طریقے سے روزے کی حفاظت نہیں کریں گے تو رمضان المبارک کی فضیلت اور برکت سے محروم رہ جائیں گے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔
کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ (سنن ابن ماجہ: 1690)
حدیث نمبر ۶:۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔
جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (صحیح بخاری: 1903)
حدیث نمبر ۷:۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔
جو نہی ماہِ رمضان کا آغاز ہوتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور (سرکش) شیطانوں کو جھکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 1898، 1899)
حدیث نمبر ۸:۔ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ۔
جوشخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 1901)
حدیث نمبر ۹:۔ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا ۔
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔ (صحیح بخاری:1909 – صحیح مسلم:1081)
حدیث نمبر ۱۰:۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ”الریان“ ہے۔ اس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ (صحیح بخاری:1896)
حدیث نمبر ۱۱:۔ مشکوٰۃ شریف میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور برکت والا مہینہ آیا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے کو فرض فرمایا ہے اور اس کی رات کی عبادت کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس میں کوئی غیر فرض (نفل یا سنت) عبادت کرتا ہےتو اس کا ثواب دیگر مہینوں میں فرض ادا کرنے والے کی طرح ہےاور جو اس میں فرض عبادت بجا لاتا ہےتو وہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کرنے والے کی طرح ثواب پاتا ہے۔
اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ ہمدردی کا مہینہ ہےاور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن بندے کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کروایاتو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کے لیے آگ سے چھٹکارے کا سبب ہو گااور اس کو روزہ دار کے اجر کے برابر اجر ملے گا، روزر دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیر۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے ہر ایک روزر دار کو افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرماتے ہیں جو تھوڑے سے دودھ پر یا ایک کھجور پر یا ایک گھونٹ پانی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض (حوضِ کوثر) سے ایسا پانی پلائے گا کہ پھر اسے جنت میں داخلے تک پیاس نہیں لگے گی۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت ہےِ درمیانی حصہ گناہوں سے مغفرت ہہے، اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی ہہے اور جو شخص اس میں اپنے غلام (نوکر) کے کام میں تخفیف (کمی) کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو جہنم سے رہائی عطا فرمائے گا۔
حدیث نمبر ۱۲:۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
رمضان کی آخری رات میری امت (کے روزہ داروں) کی مغفرت کی جاتی ہے۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا وہ رات لیلۃ القدر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ کام کرنے والا جب اپنا کام مکمل کر لیتا ہے (رمضان کے سارے روزے درست طریقے سے رکھ لیتا ہے) تو اسے اسی وقت اس کی پوری مزدوری دے دی جاتی ہے۔
رمضان المبارک کے اثرات
یہ رمضان المبارک کی فضیلت ہی ہے جو دین کے ساتھ دنیاوی لحاظ سے بھی انسانی زندگی پربھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ان اثرات میں سب سے اہم اخلاقی تربیت ہے۔ روزہ وقتی پابندیوں سے انسان میں قوتِ مدافعت اور قوتِ ارادی پیدا کرتا ہے۔ پانی اور خوراک کے میسر ہونے کے باوجود بھوکا رہنے سے، ہوس اور خواہشات کو کنٹرول کرنے سے اور برے اعمال سے پرہیز سے انسانی مزاج میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور روح کی بالیدگی ہوتی ہے۔
ماہِ رمضان انسانی معاشرے کو مساوات کا درس دیتا ہے کیونکہ اس مہینے میں روزے رکھ کر صاحبِ ثروت لوگ بھوکے اور محروم افراد کی حالتِ زار کا احساس کر سکتے ہیں اور انکی مدد کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
قدیم اور جدید طبی تحقیقات کے مطابق زیادہ تر بیماریاں معدے اور زیادہ کھانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا لہذا یہ نقصان دہ چربی اور جراثیم پیدا کرنے یا اضافی شوگر کا باعث بنتا ہے۔ روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا کر انسانی جسم کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔
معدہ ہمارے جسم کا ایک اہم حصہ ہے جو سارا سال کام کرتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے اسے ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور ہاضمے کی مشینری کی سروس بھی ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اسلامی احکامات کے مطابق سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی کی اجازت نہیں ہے، تا کہ روزے سے ثواب کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی خیال رکھا جا سکےورنہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
رمضان المبارک کے احکامات
رمضان المبارک کی فضیلت کو سمجھنے اور اس کے فیض و برکات سے بھرپور انداز میں مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم روزوں کے چند ضروری مسائل اور احکامات سے واقف ہوں۔
روزے کی شرائط
روزہ جن شرائط کے ساتھ فرض ہوتا ہے وہ یہ ہیں:۔
- مسلمان ہونا
- عاقل ہونا
- بالغ ہونا
- تندرست ہونا
- مقیم ہونا
- عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا
متذکرہ بالا صورتوں میں تین وجوہات ایسی ہیں جن کے رفع ہونے پر روزے کی قضا رمضان کے بعد واجب ہو گی۔ عدمِ ادائیگی کی صورت میں ساری زندگی اس پر روزہ واجب رہے گا۔
- بیمار جب مکمل طور پر تندرست ہو جائے اور روزہ رکھنے کی استطاعت کا مالک ہو جائے۔
- مسافر جب سفر سے واپس آ جائے یا سفر کے بعد مقیم ہو جائے۔
- عورت جب حیض و نفاس سے پاکی کی حالت میں آ جائے۔
روزہ نہ رکھنے کے شرعی عذر
چند مجبوریاں اور عذر ایسے ہیں جن میں مذہب نے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے اور مجبوری کے اختتام پر روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان تمام صورتوں میں معذور عورت یا مرد کو چاہئے کہ وہ سرعام کھانے پینے سے پرہیز کریں تا کہ رمضان المبارک کا تقدس پامال نہ ہو۔ وہ چند بڑے عذر مندرجہ ذیل ہیں:۔
عذر نمبر ۱:۔ کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے کہ روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو یا پھر بھوک پیا س کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ ہو۔ ان صورتوں میں دیندار اور مسلمان ڈاکٹر کی رائے ہی زیادہ قابل اعتبار ہو گی۔
عذر نمبر۲:۔ اگر آپ سفر کر رہے ہیں تو آپ روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن سفر کی مقدار وہی معتبر ہو گی‘ جس میں نماز کی قضا لازم آتی ہے۔ دورانِ سفر اگر روزہ باعث تکلیف نہ بنے تو روزہ رکھ لینا ہی افضل ہے۔
عذر نمبر۳:۔ کوئی شخص کسی وجہ سے اتنا کمزور یا بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو اور اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہو تو اسے اجازت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار میں فدیہ دیتا رہے یا کسی فقیر مسکین وغیرہ کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاتا رہے۔ معذور کو اس صورت میں یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فدیہ شروع رمضان میں دے دے‘ ہر روز دیتا رہے یا آخر میں اکٹھا ادا کر دے۔
عذر نمبر۴:۔ رمضان المبارک میں کوئی عورت اگر حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے سے اسے یا بچے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو وہ بھی روزہ قضا کر سکتی ہے۔
عذر نمبر۵:۔ دشمن کے مقابلے میں لڑنا پڑے اور لڑائی میں روزہ کی حالت کمزوری کی وجہ سے کسی رکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لئے بھی رروزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔
روزہ رکھنے کی نیت
نیت دل کے ارادے کا نام ہے اس لیے اگر کوئی سحر کے وقت روزہ رکھنے کے لئے اٹھا اور کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیا تو یہی اس کی نیت ہے۔ کئی علماء کا خیال ہے کہ زبان سے کہہ دینا مستحب ہے۔ ویسےروزہ رکھنے کے لیے تین کلمات زیادہ عام ہیں ۔
وَ بِصَوْمِ غَدٍنَّوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَ مَضَانَ
(میں نے ماہِ رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی)
اگر رات میں نیت کریں تو یہ الفاظ کہہ سکتے ہیں
نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ ھٰذَا
(میں نے نیّت کی کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے ماہِ رمضان کا روزہ کل رکھوں گا)
اگر دن میں نیت کریں تو یہ الفاظ کہہ سکتے ہیں
نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ ھٰذَا الْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ
(میں اﷲ تَعَالیٰ کے لیے آج ماہِ رمضان کا روزہ رکھنے کی نیت کرتا ہوں)
سحری کی اہمیت اور احکام
سحری کرنا یعنی صبح صادق سے قبل کچھ کھا پی لینا سنت ہے۔ سحری کا وقت تو نصف شب کے بعد شروع ہو جاتا ہے مگر افضل ترین سحری آخری حصہ شب کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق (کرتا) ہے۔ (صحیح مسلم: 2096)
بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:۔
سحری کھاؤ کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (صحیح بخاری:1923 – صحیح مسلم:1095)
سحری کے اوقات کے متعلق رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:۔
جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو (تو اذان کی وجہ سے) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔ (سنن ابی داؤد : 2350)
حالتِ جنابت میں سحری کھانے کے بعد غسل کیا جا سکتا ہے۔ ( صحیح مسلم 1109/80)
افطاری کی اہمیت اور احکام
سحری میں تاخیر افضل ہے تو افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے۔ افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ افطاری میں عجلت سے مراد یہ نہیں کہ وقت سے پہلے ہی افطار کر لیا جائے اس پر احادیث میں سخت سزا کا ذکر آیا ہے۔ روزہ کھجور‘ چھوہارے یا پانی سے افطار کرنا سنت ہے اور مستحب یہ ہے کہ تین، پانچ ، سات یا نو دانے کھائے۔
افطاری کے اوقات کے متعلق بخاری و مسلم و ترمذی میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:۔
ہمیشہ وہ لوگ بھلائی میں رہیں گے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری:1957 – صحیح مسلم:1098)
مسند احمد، سنن ابی داؤد، جامع الترمذی، اور سنن ابن ماجہ میں حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِاقدسﷺ فرماتے ہیں:۔
جب تم میں کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور یا چھوہارے سے افطار کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔ (جامع الترمذی:695 )
روزہ کھولنے یا افطاری کی نیت
روزہ کھولنے کے لیے افطاری کے وقت یہ دعا پڑھیں:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ
(اے اﷲ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی رزق سے میں نے افطار کی)
کن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
روزہ کے مکروہات
نیچے دیے گئے کام روزے کے مکروہات میں شمار ہوتے ہیں:۔
روزہ توڑنے کا کفارہ
کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ یا کوئی دوسرا نفلی روزہ ٹوٹ گیا تو اس کی قضا لازم ہے‘ لیکن بلا عذر شرعی رمضان المبارک کا روزہ توڑنے پر قضا کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ رمضان المبارک کے ایک روزے کا بدل تو سال بھر کے روزے بھی نہیں بن سکتے‘ لیکن شریعت نے اس کی کم از کم مقدار یہ مقرر کی ہے کہ وہ شخص لگاتار دو ماہ یعنی ساٹھ ایام کے روزے رکھے۔ اس میں تسلسل شرط ہے یا پھر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مساکین کو دونوں وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائے۔
رمضان المبارک سے فائدہ اٹھائیں
دوستو! سارا سال ہم دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں مشغول رہ کر اپنی تخلیق کے اصل مقصد یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو جاتے ہیں، گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ایک مہینہ ہمیں عطا کیا ہے کہ ہم دوبارہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں اور اللہ کی عبادت میں دل لگا کر اپنے گناہوں کو بخشوا لیں، دلوں کو منور کر لیں، غفلت کے پردے ہٹا دیں اور پرہیز گاری اختیار کریں اور کوشش کریں کہ اس کے اثرات ہم پر سارا سال رہیں۔
رمضان المبارک کی فضیلت جان کر ہمیں اس با برکت مہینے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ کوشش کریں کہ اپنے روز مرہ کے اوقات میں تبدیلی لائی جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کیا جائے۔
یاد رکھیں کہ رمضان المبارک کی فضیلت صرف روزے رکھنے اور عبادات کرنے میں نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد تو خود کو گناہوں سے بچانا ہے۔ کوشش کریں کہ ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو، اللہ کی نافرمانی نہ ہو، جھوٹ نہ بولا جائے، غیبت نہ کی جائے، بد نگاہی سے بچا جائے، کان کوئی غلط بات نہ سنیں، زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے، رشوت اور سود سے نہ کھائیں اور مالِ حرام سے بچیں۔
دوستو! کوشش کریں کہ روزہ اور تراویح کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن کریں۔ چلتے پھرتے ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ زیادہ نہ ہو سکے تو کم از کم ہر نماز کے بعد ایک تسبیح درودِ پاک، ایک تسبیح استغفار اور ایک تسبیح تیسرے کلمے کی ضرور پڑھیں۔ اگر سحری کے لیے کچھ جلدی اٹھنے کی عادت بنا لیں تو با آسانی تہجد کے نوافل اداکیا جا سکتے ہیں۔
اہلِ ایماں کے لئے ہے یہ مسرت کا پیام
آگیا سرچشمہء فضلِ خدا ماہِ صیام
روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں
کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام
مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں
پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادہء وحدت کا جام
بارگاہِ رب العزت میں سبھی ہیں سجدہ ریز
دید کے قابل ہے یہ قانونِ قدرت کا نظام
طالبِ فضلِ خدا ہیں بچے بوڑھے اور جوان
بھوکے پیاسے ہیں مگر پھر بھی نہیں ہیں تشنہ کام
ماہِ رمضاں میں یہ افطار و سحر کا انتظار
ہے نشاطِ روح کا ساماں برائے خاص و عام
پیش خیمہ عید کا ہے ماہِ رمضاں اس لئے
ہو مبارک سب کو برقی اِس کا حُسنِ اختتام
مجھے قوی امید ہے کہ اس تحریر سے آپ کو رمضان المبارک کی فضیلت سمجھنے، اور اس کے بنیادی احکامات کو جاننے میں بہت مدد ملی ہو گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس مبارک مہینے میں اپنی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے اور رمضان المبارک کی برکات سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے… آمین۔
میری گزارش ہے کہ اس مبارک مہینے میں آپ مجھ گناہگار کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
جو دوست پسند کریں تو نیچے فارم فل کر کے آپ ہائی کوالٹی رمضان 2023 کا کیلنڈر ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں جس میں لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان، پشاور اور اوکاڑا کے اضلاع کے اوقاتِ سحر و افظار دیے گیے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو دیگر شہروں کے لیے کیلنڈر بنوانے کے لیے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔