کانپیں ٹانگ جاتی ہیں از نامعلوم
سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ارادہ روز کرتا ہوں کہ ان سے حالِ دل کہہ دوں
مگر وہ روبرو آئیں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جوں ہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بد نما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
علیٓ میں جب بھی ہنستا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
نامعلوم شاعر