روس اور یوکرائن کے جھگڑے کا مزاحیہ جائزہ
روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ چل رہی ہے جو کہ ایک سنجیدہ اور نازک معاملہ ہے۔ حال ہی میں واٹس ایپ کے ایک پیغام میں اس جھگڑے کا ایک مزاحیہ تجزیہ پڑھنے کو ملا جسے کچھ ردوبدل اور اضافے کے ساتھ یہاں پیش کر رہا ہوں۔ سارا کریڈٹ اصلی تحریر لکھنے والے کو جاتا ہے۔
جب سے روس اور یوکرائن پیدا ہوۓ ان کی منگنی کر دی گئی۔ روس یوکرائن کو کافی چاہتا تھا اور اپنے کئی اثاثے یوکرائن کو دے چکا تھا۔ پھر کچھ جلنے والوں نے خبر پھیلا دی کہ روس اچھا نہیں ہے ادھر اُدھر منہ مارتا رہتا ہے اور کچھ کماتا بھی نہیں ہے۔ مطلبی لوگوں نے یوکرائن کو پٹی پڑھائی کہ اگر تم دنیا میں کچھ بننا چاہتی ہو تو روس کو چھوڑ دو۔ بالآخر لوگوں کی باتوں میں آ کر 1991 میں یہ منگنی ٹوٹ گئی۔
منگنی ٹوٹنے کے بعد پتا چلا کہ یوکرائن نے امریکہ نام کے ایک مالدار لفنگے کے ساتھ راہ و رسم بڑھا رکھے ہیں اور امریکہ نے اپنے کچھ مطلبی قسم کے یورپی دوستوں سے یہ وعدہ بھی کروا دیا کہ وہ یوکرائن کو یورپ کا ویزا لے کر دیں گے۔ کافی عرصہ امریکہ اور اسکے یورپی دوستوں نے یوکرائن کو جھوٹا لارا لگاۓ رکھا۔ پھر محلے میں مشہور ہوا کہ یوکرائن کو اپنے جال میں پوری طرح پھانسنے کے لۓ جلد ہی نیٹو نام کی رسم کرنے لگے ہیں۔
دراصل امریکہ اور روس بچپن سے ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور اسی دشمنی کے چکر میں امریکہ نے یوکرائن کو بھی پھنسا لیا کیونکہ وہ روس اور یوکرائن کو اکٹھے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ روس نے یوکرائن کو بہت سمجھایا کہ دیکھ تو میری عزت ہے۔ امریکہ صرف مجھے نیچا دکھانے کے لئے تجھ سے پینگیں بڑھا رہا ہے اسے تجھ سے کوئی پیار ویار نہیں ہے وہ آخر تجھے دھوکا دے گا اور تجھے پچھتانا پڑے گا۔ ؒلیکن یوکرائن کی آنکھیں تو امریکہ اور اس کے یورپی برگر دوستوں کی دولت سے خیرہ ہو چکی تھیں اس لئے اُس نے روس کی ایک نہ سنی بلکہ اسے جواب دیا ”جا پاگل جیا نہ ہووے تاں، میرا امریکہ میرے لئی تیرے دند پنھ دیے گا“ ۔
امریکہ بھی یوکرائن کو دلاسے دیتا رہا کہ ” میں اپنے برگر دوستوں کو کہوں گا کہ وہ روس سے گیس لینا بند کر دیں تم دیکھنا روس کچھ ہی دنوں میں بھوکا مر جائے گا“ روس کی گیس کی ایجنسی ہے نا۔ یہ سن کر تو یوکرائن کی مستی اور بڑھ گئی۔ لیکن امریکہ یہ بھول گیا کہ روس کا ماما چین جو پہلے ہی ولایت جا کر کافی امیر ہو چکا ہے پہلے ہی امریکہ پر خار کھائے بیٹھا ہے کیونکہ امریکہ اس کی منگیتر تائیوان پر بھی ڈورے ڈال رہا ہے۔ روس اور یوکرائن کے جھگڑے پر چین نے روس کو کہا ”پت پیسے دی پرواہ نہیں کرنی بس نیواں نہ ہوئیں، کم چک کے رکھ“ ۔
روس اور یوکرائن آپس میں رشتہ دار ہیں کیونکہ یوکرائن رشتے میں روس کے چچا کی بیٹی ہے، سالوں پہلے اسے دادا کی طرف سے کریمیا کالونی میں ایک پلاٹ وراثت میں ملا تھا۔ اب روس نے رپھڑ ڈال دیا کہ یہ پلاٹ تو مجھے ملا تھا اور میں نے منگنی پر یوکرائن کو دیا تھا۔ اب جب منگنی ہی نہیں رہی تو میں اپنا پلاٹ واپس لوں گا۔ روس نے بندے بٹھا کر اس پلاٹ پر قبضہ کر لیا۔ یہ پیچھے 2014 کی بات ہے۔
اب یوکرائن بڑا روئی دھوئی ”وے امریکہ جے مرد دا بچہ ایں تےاس کنجر کولوں میرا پلاٹ چھڑا کے دے “ لیکن امریکہ جانتا تھا کہ روس کے پاس اس کے دادا سوویت یونین کی بڑے میگزین والی بندوق ہے اور اس کی روس کے ہاتھوں بڑی ٹھکائی ہو گی اور دوسری طرف چین بھی ڈنڈا اُُٹھا کر اس کے پیچھے پڑ جاۓ گا۔ اس لیے وہ روس سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔
امریکہ نے پھر یوکرائن کو جھانسا دیا ” چھوڑو ڈارلنگ ہم اس کو بھوک سے ماریں گے، تم نیٹو کی رسم تو کرو پھر ہم سب مل کر اس کو دیکھ لیں گے“ یوکرائن کی تو مت ماری گئی تھی وہ پھر امریکہ کے دھوکے میں آ گئی۔ جب روس کو یہ بات پتا چلی تو اس نے اپنے بڑے چچا کے دو بیٹوں سے کہا ”یوکرائن کے گھر میں دو کمرے جو میری زمین سے لگتے ہیں وہ دراصل تمھارے ہیں۔ تم ان پر قبضہ کر لو، کوئی اُچی نیویں ہوئی تے میں دیکھ لاں گا“ قبضے کے بعد یوکرائن کے وہی رونے دھونے اور امریکا کے وہی جھوٹے دلاسے۔
اب امریکہ بھی کیا کرتا۔ اس کے یورپی برگر دوست کہتے ہیں کہ اگر روس سے گیس نہ لیں تو باربی کیو کیسے ہو گا۔ آخر 2022 میں روس نے پکے کاغذ بنوا کر وہ دونوں کمرے اپنے چچازادوں کے نام کر دیے۔
یوکرائن پر تو جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو، وہ امریکہ سے یاری بڑھاۓ جا رہی تھی۔ آخر امریکہ اور اس کے برگر دوستوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ نیٹو کی رسم کر کے نیٹو کے بندے روس کی زمین کے پاس بٹھا دیئے جائیں جو روس کو تنگ کریں، اس کی زمینوں کا پانی بند کر دیں اور اس کا جینا محال کر دیں۔ روس کو یہ خبر یوکرائن کی کچھ سہیلیوں نے بتا دی۔ اب روس وڈی بندوق اُُٹھا کر یوکرائن کی طرف نکل پڑا ہےاور کہتا ہے کہ ”گلاں نال تے تینوں عقل نہیں آنی۔ ہن میں تینوں چک کے لے جاواں گا“ ۔
روس کو آتے دیکھ کے امریکہ اور اس کے برگر دوستوں کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ یہ کہتے ہوۓ بھاگ گۓ کہ ہم روس اور یوکرائن کے معاملات میں براہِ راست مداخلت نہیں کر سکتے۔ اب روس کے کہنے کے مطابق یوکرائن کو بھی سمجھ آ رہی ہے کہ سب مطلبی ہیں لیکن ابھی تک اپنی خوبصورتی کی اکڑ میں وہ روس سے صلح نہیں کرنا چاہتی اور نا ہی امریکہ اور اس کے دوست چاہتے ہیں کہ یہ صلح ہو.
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست۔
اتفاق سے جب روس وڈی بندوق لے کر نکل رہا تھا تو ایک دور کے غریب گاؤں پاکستان کا چودھری مدد مانگنے اور کاروبار کرنے روس کے پاس آن پہنچا۔ اب ایک طرف امریکہ اور اس کے برگر دوست دور دور سے روس کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف غریب چودھری روس سے کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ اس پر امریکہ اور اس کے دوستوں نے سوچا کہ اس طرح تو ہماری بدمعاشی ختم ہو جاۓ گی۔ ابھی حال ہی میں تو ہم اسی غریب گاؤں کے ساتھ والے پنڈ سے دم دبا کر بھاگے ہیں اس طرح تو کوئی بھی ہم سے نہیں ڈرے گا۔
پہلے تو امریکہ اور اس کے برگر دوستوں نے پنچایت بلائی لیکن وہ بھول گۓ کہ آج کل پنچایت کی سربراہی روس کے پاس ہے۔ جس طرح امریکہ دوسروں کی مدد کی بجاۓ پنچایت کو توڑ دیتا تھا اسی طرح روس نے پنچایت توڑ دی۔ پھر امریکہ نے دوسروں پر روس پر پابندیاں لگا کر دبانے کی کوشش کی۔ اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا تو امریکہ اور اس کے حواریوں نے سوچا کہ کسی طرح بھی دوسروں پر رعب جمانا ہے تو کچھ نہ کچھ خباثت تو کرنی پڑے گی تو کیوں نہ اس غریب گاؤں کی زندگی اجیرن کر دی جاۓ ۔
پہلے تو امریکہ نے غریب گاؤں کے ایک بینک پر جرمانہ کر دیا پھر گاؤں کو ڈرانے دھمکانے لگا کہ روس سے تعلق توڑ لو اور اس کو گالیاں نکالو۔ ساتھ ہی اس غریب گاؤں کے دوسرے بدمعاشوں کو کہا کہ جتنا بھی پیسا لگے اپنے گاؤں کے چودھری کو نکال دو، تاکہ ہم مل کر تمہارے گاؤں میں بدمعاشی کر سکیں۔ وہ بدمعاش تو پہلے ہی اس چودھری سے تنگ تھے کیونکہ وہ انہیں جیل کرانا چاہتا ہے۔
امریکہ کے یورپی برگر دوستوں نے بھی اپنا رعب جھاڑنے کے لیے گاؤں کے بڑوں کو دھمکانا شروع کر دیا ہے۔ گاؤں کے بڑوں نے بھی کھری کھری سنا دیں کہ جب ہماری اور ہمارے بھائیوں کی زمین پر تمہارے چمچموں نے قبضہ کیا تب تو کوئی نہیں بولا اب اپنی گرل فرینڈ پر برا وقت آیا ہے تو مرچیں لگ رہی ہیں۔ اب سارے بدمعاش مل کر گاؤں اور گاؤں کے چودھری کے خلاف کھڑے ہو گۓ ہیں کہ روس تو طاقتور بندہ ہے اس سے پنگا لینا مشکل ہے اس غریب گاؤں اور اس کے چودھری کی بینڈ بجاؤ۔
دوسری طرف اب محلے میں ایک نئی خبر مشہور ہے کہ امریکہ کی بزدلی کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ جلد ہی روس کا ماما چین بھی اپنی پرانی منگ تائیوان کو اُٹھا کے لے جاۓ۔ بڑا برا وقت چل رہا ہے جی اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ خاص طور پر ہمارے غریب گاؤں کو مقامی اور بیرونی بدمعاشوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔